اردو ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
جمال نے بستے سے کاپی اور قلم نکالا اور تختہ سیاہ کی جانب دیکھا۔اس نے نظم کے تین بند پڑھے جو ٹیچر نے لکھے تھے۔ اکثر طالب علم ایک بند کاپی میں نقل بھی کر چکے تھے۔ جمال نے پہلا بند آہستہ آہستہ پڑھا اور آنکھیں بند کر کے اس پر غور کرنے لگا۔اس نے دو مرتبہ اس بند کو پڑھا تھا مگر اسے وہ بند زبانی یاد ہو گیا تھا۔ اس نے اپنے دوستو کی جانب دیکھا، وہ اگلا بند بڑے خوبصورت انداز میں کاپی میں لکھ رہے تھے۔ جمال مسکرایا اور بولا:
۔ یہ تو میں ابھی لکھ لوں گا۔۔ میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لکھنا۔
اس کے دوست لکھنے میں کتنا وقت ضائع کر رہے تھے، وہ کبھی تختہ سیاہ کی جانب نظر جما کر دیکھتے اور پھر بڑی آہستگی سے کاپی پر اسے نقل کرتے۔ البتہ جمال کو تختہ سیاہ کی جانب دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی، اسے پورا بند یاد تھا اور اس نے اسے کاپی پر بڑی سرعت سے لکھ دیا تھا۔وہ خوشی سے بولا:
۔ سر جی ۔۔ میں لکھ لیا ہے۔
سر سید سلیم اپنی کرسی سے اٹھے اور آگے بڑھ کر انہوں نے جمال کی کاپی پر نگاہ ڈالی، تاکہ اس کے کام کا جائزہ لیں۔انہوں نے بمشکل اپنی مسکراہٹ چھپائی اور جمال کو جھنجھوڑنے کے انداز میں کہا:
۔ اتنا خوب صورت شعر اتنی بھدی لکھائی میں لکھا ہے تم نے۔تمھیں معلوم ہے تم نے کیا کیا ہے؟ تم نے تو لکھائی، کاغذ، قلم اور شعر سب کی توہین کر ڈالی ہے۔یہ درست ہے کہ جب لکھنا سیکھتے ہیں تو ابتدا میں سب کی لکھائی ہی بہت خوبصورت نہیں ہوتی۔لیکن جب آپ اپنی لکھائی کا موازنہ کسی ماہر کی لکھائی سے کرتے ہیں تو آپ بھی اس کو بہتر کرسکتے ہیں۔ جمال ، تم اب پانچویں جماعت میں پہنچ چکے ہو، اور میں تمہیں دوسری جماعت سے پڑھا رہا ہوں۔ اس وقت سے میں تمہیں گاہے گاہے اچھی لکھائی کی جانب متوجہ کر رہا ہوں۔ جمال بیٹے صاف ستھرا اور عمدہ لکھو ، مگر تمھارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
سب بچے اپنی کاپیاں چھوڑ کر جمال کی جانب دیکھنے لگے۔ استاد سید سلیم واپس مڑے اور اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے جمال کی جانب افسوس سے دیکھا۔اور پھر پوری جماعت کو متوجہ کر کے کہنا شروع کیا:
تاریخ کی ابتدا لکھنے سے ہوتی ہے، (یعنی ہم تک جو تاریخ پہنچی وہ مورخ نے لکھ کر محفوظ کی)۔یہ انسان کا ابتدائی تخلیقی ہنر تھا۔آپ سب بھی انسان ہیں، آپ بھی اس کا اہتمام کریں۔آپ جیسے ذہین طلبہ کی لکھائی بھی بہت خوبصورت ہونی چاہیے۔آپ کی عادات کتنی اچھی ہیں، آپ کا شمار اچھے طالب علموں میں ہوتا ہے۔ اس بند ہی کو پڑھیے، یہ بہترین خوبصورت جذبوں پر مبنی شاعری ہے۔ اور یہ بھی مت بھولیے کہ اللہ تعالی جمیل (خوبصورت) ہے اور وہ جمال (خوبصورتی) کو پسند کرتا ہے۔اور میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ خدا کے لئے باقی حسن و خوبی کے ساتھ اپنی لکھائی کو بھی خوبصورت بنائیں۔
استاد سید سلیم ذرا دیر کو ٹھہرے اور پھر جمال کو اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ پوری جماعت کی نظریں جمال کی جانب تھیں، جمال ہچکچاتے ہوئے اپنے بینچ سے اٹھا۔اور بوجھل قدموں سے استاد کے ڈیسک کے پاس جا کھڑا ہوا۔ استاد سید سلیم نے طالب علموں کو پکارا:
۔ سب اپنے کام کی جانب متوجہ ہوں اور اسے مکمل کریں۔
اکثر بچے بڑے ذوق و شوق سے لکھنے میں مشغول ہو گئے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں تھی کہ جمال کو اس کی بھدی لکھائی پر سرزنش کی گئی ہو۔ اکثر اساتذہ اسے صاف ستھرا اور خوبصورت لکھنے کی جانب متوجہ کرتے رہتے تھے لیکن وہ ان کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا۔ اکثر تو وہ ہوم ورک مکمل ہی نہ کرتا تھا۔ اگر وہ تختہ سیاہ سے نقل کر کے کاپی میں لکھتا تو وہ ایسے کیڑے مکوڑے ہوتے کہ جمال انہیں خود بھی نہ پڑھ سکتا۔جب وہ ہوم ورک کرتا تو نہ لفظوں کو خوبصورت لکھنے کی کوشش کرتا اور نہ ہی ان کی بناوٹ کی پرواہ کرتا۔ بس ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے قلم گھسیٹ کر ایک نا پسندیدہ کام انجام دیا ہو۔ اگر استاد صاحب کی سزا کا خوف نہ ہوتا تو وہ اتنا بھی نہ لکھتا۔اس کی کاپی کا اگر کتاب کی تحریر سے موازنہ کیا جاتا تو وہ آپس میں ملتی نہ تھیں۔لکھتے ہوئے اس کی کوشش ہوتی کہ وہ جلدی سے کام کر لے، اس کا دھیان بھی لکھنے کی جانب نہ ہوتا۔اسے بار بار لکھے ہوئے الفاظ کو کاٹنا پڑتا، کیونکہ وہ کچھ کا کچھ لکھ دیتا۔ اسی طرح ابھی روشنائی خشک بھی نہ ہوئی ہوتی کہ وہ کاپی کا صفحہ الٹ دیتا اور یوں ساری روشنائی دوسرے صفحے پر پھیل کر اسے پڑھنا ناممکن بنا دیتی۔ ایسے لگتا کسی نے اس کی لکھائی پر جھاڑو پھیر دیا ہے۔
اس کے دوست جب اکھٹے بیٹھتے تو اکثر و بیشتر جمال کی بھدی لکھائی ان کا موضوع ہوتی۔اور جمال غصّے سے ہونٹ بھینچ کر کہتا:
۔ جناب سب کچھ لکھائی ہی نہیں ہوتی۔ میں تو اسے وقت ضائع کرنا سمجھتا ہوں۔ مجھے سب سبق یاد ہوتے ہیں، ریاضی کے سوال بھی سمجھ آتے ہیں، بس ایک لکھائی ہی گندی ہے نا۔۔ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔میرے گریڈز دیکھ لو، آپ سب سے اچھے نمبرمیں لیتا ہوں۔ اگر اچھی لکھائی کی کوئی اہمیت ہوتی تو اتنی کامیابیاں میرے حصّے میں نہ آتیں۔
میں ہمیشہ استاد صاحب کا لیکچر اور ایک ایک لفظ دھیان سے سنتا ہوں۔اور اسے اپنے دماغ میں لکھ لیتا ہوں۔اور کاپی میں نہیں لکھتا کہ بھول جاؤ تو بار بار کاپی میں لکھا دیکھنا پڑے۔ میں گھر جا کر جب سبق دہراتا ہوں تو استاد صاحب کا لیکچر ہی ذہن میں دہرا لیتا ہوں۔اور مجھے کسی کاپی کو دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
جمال ہمیشہ ایسے ہی دلائل دیتا تھا۔اور اس کے ساتھی اس کی بھدی لکھائی پر جتنی بھی باتیں بنا لیں، اس کے ٹاپر ہونے کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔ وہ واقعی جینئس تھا، جسے سارے اسباق ازبر ہوتے تھے، اور اسی بنا پر امتحان میں اس کے نمبر بھی زیادہ آتے تھے۔اگر کامیابی کے لئے اچھی لکھائی ضروری ہوتی تو جمال جیسی بھدی لکھائی والا طالب علم ان کی جماعت کا ’’ٹاپر‘‘ نہ ہوتا۔
جمال استاد سید سلیم کے پاس جا کر کھڑا ہوا تو انہوں نے اسے مزید قریب آنے کو کہا۔جمال کھسک کر کچھ اور قریب ہو گیا، اور ان کی جانب جھکا۔اس کے کئی ہم جماعت کن اکھیوں سے ان کی جانب دیکھ رہے تھے۔ استاد صاحب نے جمال کو آہستگی سے کہنا شروع کیا، ان کی آواز بس جمال ہی کو سنائی دے رہی تھی۔باقی جماعت کو بھنبھناہٹ ہی محسوس ہو رہی تھی۔جمال ان کی باتیں غور سے سن رہا تھا، اچانک اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا، اور آنکھیں پھیل گئیں۔پھر وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا آیا اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔اس کے ساتھیوں نے اس سے سرگوشی میں پوچھا:
۔ کیا ہوا جمال؟
۔ سرنے کیا کہا ہے؟
جمال نے کسی کی طرف دیکھے بغیر سنجیدگی سے کہا:
۔ کچھ نہیں ۔۔
جمال نے اپنا سر ڈیسک پر رکھا اور دونوں بازوسر کے گرد لپیٹ لئے، اور بالکل ساکت و جامد ہو گیا۔طلبہ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے اور ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال کر رہے تھے۔
۔ کیا جمال رو رہا ہے؟
۔ اس نے کس بات کا اتنا اثر لے لیا؟ یہ تو ہمیشہ ہنستا رہتا تھا۔سر نے ایسا کیا کہہ دیا ہے اس سے۔
جمال اپنے ہم جماعتوں کی سرگوشیاں سن رہا تھا۔اس نے آنکھیں بند کی اور خیال کی لا محدود وسعتوں میں سفر کرنے لگا؛ اس نے تصوّر کیا کہ وہ میڈیکل کے آخری سال میں ہے۔وہ بڑی محنت سے یہاں تک پہنچا ہے۔ وہ اپنی کلاس کے ’’ٹاپرز‘‘ میں سے ہے۔کلاس میں اس کی باتیں اور علم باقی طلبہ کو خاموش کروا دیتا ہے۔ٹیچر جب لیکچر دیتے ہیں تو وہ اس کے ہر اہم نکتے کو اپنی کاپی میں نوٹ کرتا جاتا ہے۔ اور جب وہ تیزی سے استاد کی باتیں لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کی لکھائی مزید بھدی ہو جاتی ہے۔حتی کہ اس کے لئے خود اس کا لکھا بھی پڑھنا مشکل ہو جاتا، لیکن اس سب کے باوجود وہ آخری امتحان میں بھی پاس ہو گیا تھا اور اسے میڈیکل ڈاکٹر کی ڈگری مل گئی تھی۔
اس کی پہلی تعیناتی ترکی کے جزیرے ’’ایجا‘‘ میں ہوئی تھی۔وہ بڑی خوشی سے وہاں پہنچا تھا۔ وہ ایجا میں سب سے بڑی محبت سے ملتا، وہاں کے لوگ اس سے بہت محبت کرنے لگے تھے۔انہیں کوئی بھی تکلیف یا مرض آ لیتا تو وہ بھاگ کر ڈاکٹر جمال کے پاس پہنچتے۔ او جمال پوری تندہی سے ان کا علاج کرتا۔
ایک روز صبح سویرے اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ آنے والا ایک ادھیڑ عمر شخص تھا۔ اس نے گود میں ایک چھ سات برس کا بچہ اٹھا رکھا تھا۔جمال نے ان سے پوچھا:
۔ خیر تو ہے چچا سیف الدین، کمال کو کیا ہو گیا ہے؟
سیف الدین نے روتے ہوئے اس سے کہا:
۔ ڈاکٹر جمال ، میرے پوتے کو بچا لو۔ یہ مر جائے گا۔میری امید نہ توڑنا ڈاکٹر۔۔
جمال نے جلدی سے بچے کو اٹھایا، اور اسے اندر لے آیا۔اس نے بچے کو لٹا کر اس کا معائنہ کیا۔ اور سیف الدین کو دوا کا نسخہ دیتے ہوئے کہا:
۔ چچا جان، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ میں نے دوا لکھ دی ہے۔یہ دوا آپ کو’’ سید عثمان فارمیسی ‘‘ سے مل جائے گی۔ آپ اسے لے جائیں اور تین دن تک اسے صبح شام دوا پلائیں۔پھر اسے میرے پاس دوبارہ لے آئیں۔
چچا سیف الدین نے دوا کا نسخہ لیا اور اپنے پوتے کو اٹھا کر دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔اگلی صبح جمال ابھی ناشتے میں مشغول تھا جب اس نے اپنے گھر کے باہر زور دار دستک کی آواز سنی، اور اس کے ساتھ ہی رونے کی آوازیں بھی سنائی دیں۔
۔ادھر دیکھو جمال ۔۔ یہ دیکھو۔۔ یہ کیا ہو گیا۔۔ میرا پوتا مر رہا ہے۔
جمال نے اپنے ہاتھ کا نوالہ پھینکا اور تیزی سے باہر کی جانب لپکا۔باہر چچا سیف الدین دروازے پر بے چین کھڑے تھے۔ان کی حالت قابلِ رحم تھی۔ جمال نے ان سے پوچھا:
۔کیا ہوا چچا جان؟!
۔ جلدی آؤ داکٹر جمال ۔۔ میرے پوتے کی جان بچا لو۔
جمال نے اپنا میڈیکل باکس اٹھایا اور ان کے ہمراہ چل پڑا، وہ ساتھ ساتھ ان سے کمال کے بارے میں بھی پوچھ رہا تھا۔
چچا سیف الدین نے بتایا:
۔ جو دوا آپ نے لکھی تھی، وہی ہم نے اسے دی، مگر پہلی خوراک کے بعد ہی اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔اس کی سانس پھولنے لگی اور وہ غنودگی میں چلا گیا۔ جب ہم نے شام کو اسے دوا دی تو اس کے پیٹ میں درد بھی شروع ہو گیا۔اور ابھی صبح جب اسے دوا دی ہے تو اس کا درد بہت ہی بڑھ گیا ہے، وہ درد سے لوٹ پوٹ ہو رہا ہے،جمال ۔۔ میرے پوتے کو بچا لو۔
جب وہ گھر پہنچے تو کمال بے ہوش پڑا تھا۔اور اس کی ماں اس کے قریب بیٹھی اس پر آنسو بہا رہی تھی۔جمال نے آگے بڑھ کر بچے کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو وہ تیز بخار سے بھن رہا تھا۔وہ جلدی سے بولا:
۔ بخار بہت تیز ہے۔ بچے کے کپڑے اتار دیں۔دادا اور والدہ اس کے کپڑے اتارنے لگے، جمال اپنا میڈیکل باکس کھول رہا تھا جب اچانک اس کی نگاہ میز پر پڑی ایک دوا کی بوتل پر پڑی۔اس نے بڑی پریشانی اور گھبراہٹ سے پوچھا:
۔ چچا جان، یہ دوا کون استعمال کرتا ہے؟
سیف الدین کپڑے اتارتے ہوئے بولا:
۔ یہی دوا تو آپ نے کمال کے لئے لکھی تھی۔
جمال کو جھرجھری آگئی۔اس نے آگے بڑھ کر دوا اٹھائی، اور اس کی تفصیلات پڑھنے لگا، اس نے چچا سیف الدین سے کہا:
۔ نہیں، میں نے یہ دوا نہیں لکھی تھی۔ آپ دوا کا نسخہ مجھے دکھائیں۔
ماں بھاگ کر دوا کا نسخہ لے آئی، جمال نے اسے غور سے دیکھا اور بولا:
۔ نسخے میں یہ دوا نہیں لکھی۔۔ آپ کو یہ دوا کس نے دی ہے۔چچا سیف الدین اس کے قریب آئے اور پریشانی اور گھبراہٹ میں بولے:
۔ کل صبح آپ نے ہی تو یہ نسخہ لکھا تھا۔ میں اسے لیکر ’’عثمان فارمیسی‘‘ پر گیا تھا۔ عثمان کہیں گیا ہوا تھا اور وہاں صرف اس کا اسسٹنٹ تھا۔ میں نسخہ اسے دیا تو وہ اس سے پڑھا ہی نہ جا رہا تھا۔اس نے ہونٹ سکیڑ کر کہا: ’’چاچا۔۔ یہ تو مجھ سے پڑھا نہیں جا رہا، ڈاکٹر صاب نے نجانے کونسی دوا لکھ دی ہے‘‘۔میں نے اسے کہا: ’’دیکھو، مجھے فوراً دوا چاہیے، میرا پوتا بہت بیمار ہے‘‘۔ تو اس نے مجھے یہ دوا دے دی، وہ کہہ رہا تھا کہ اسے توصرف اس کا پہلا اور آخری حرف ہی سمجھ آیا ہے۔اور پہلا اور آخری حرف اس دوا کا بھی یہی ہے؛ ویسے اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں دوبارہ آپ کے پاس جا کر اسے کنفرم کر لوں کہ یہی درست دوا ہے۔میں نے ہی اس سے کہا کہ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ اور گھر جا کر میں نے دوا پوتے کو پلا دی۔
جمال اپنی جگہ سن ہو کر رہ گیا، اس کے منہ سے چیخ نکل گئی:
۔ او میرے رب۔۔ یہ کیا ہو گیا۔
اس نے تیزی سے ایمرجنسی فون کال ملائی،اور ساتھ کے جزیرے کے بڑے ہسپتال میں بات کی۔ایمرجینسی طبی امداد کی گاڑی میں کمال کو منتقل کیا جا رہا تھا جب ایمبولینس ہیلی کاپٹر بھی پہنچ گیا۔وہ کمال کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ اس نے بے اختیار ہاتھ میں پکڑے دوا کے نسخے پر نگاہ ڈالی۔اس کا دل کانپ اٹھا۔
ہیلی کاپٹر فضا میں بلند ہوا تو اس نے ہاتھ اٹھا کر کمال کے لئے دعا کی:
۔ اے اللہ اسے شفا دے، اسے اپنی عافیت میں رکھنا۔اور میری اتنی بڑی غلطی پر مجھے معاف کر دے۔اے اللہ، میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ اسے ٹھیک کر دے۔
جونہی ہسپتال پہنچے اسے فوراً ایمرجنسی میں داخل کر لیا گیا۔اور دو ڈاکٹروں نے اپنی پوری کوشش کی کہ کمال کو موت کے منہ سے نکال لائیں۔کئی گھنے کی لگاتار کوشش کے بعد ایک ڈاکٹر کی آواز سنائی دی:
۔ الحمد للہ ۔۔ ہم اسے بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
تب ہی جمال کی بھی جان میں جان آئی۔اس نے اپنا سر جھکا دیا اور اسی نظم کے بند ذہن میں دہرانے لگا جو اس نے کئی برس قبل سکول میں یاد کی تھی۔
اس کے ذہن میں اس روز استاد سید سلیم کے کہے ہوئے جملے بھی آگئے، جو انہوں نے اسے بالکل قریب بلا کر کہے تھے۔
۔ کاش کہ تم اتنے ذہین نہ ہوتے جمال۔ ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں تمہارے لئے اتنا پریشان نہ ہوتا۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تم محنت سے پڑھتے ہو تو ایک دن تم بڑے آدمی بھی بن جاؤ گے۔اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہاری بھدی لکھائی کی وجہ سے کسی کا کوئی نقصان نہ ہو جائے۔میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ تم سے کسی کو نقصان نہ پہنچے۔میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ میری خاطرایسا کر لو۔پلیز جب تم واپس اپنی نشست پر جاؤ گے تو اس بارے میں ضرور سوچنا، شاید کہ میری بات تمہیں سمجھ آ جائے۔ذرا تصور کرو اگر بڑے ہو کر تم ڈاکٹر بن گئے تو کیا ہو گا؟ ذرا سوچو کہ تم ڈاکٹر بن کر قریب کے کسی جزیرے میں تعینات ہو گئے ہو، اور میں ایک بوڑھا شخص ہوں جسے لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔میرا پوتا بیمار ہو جاتا ہے اور میں اسے لے کر تمہارے پاس آتا ہوں۔تم اس کے لئے نسخہ تجویز کرتے ہو۔ میں نسخہ لے کر فارمیسی جاتا ہوں، اور مارمسسٹ کو بھی تمہارا نسخہ سمجھ نہیں آتا کیونکہ وہ انتہائی گندی لکھائی میں تحریر ہے۔ اور وہ اپنے اندازے کے مطابق دوا دے دیتا ہے۔سوچو کہ وہ غلط دوا استعمال کرنے کا نقصان کیا ہو گا؟ اور اس پیریڈ کے آخر میں ہم تم سے پوچھیں گے کہ غلط دوا کے استعمال کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
جمال کئی برس پہلے کے کمرہء جماعت کے منظر میں کھو گیا تھا۔اس کا جسم بوجھل ہو رہا تھا جب ایک ڈاکٹر نے آ کر اس کا کندھا تھپتھپایا:
۔ خیر ہے جمال؟ کیا تم بیمار ہو؟
۔ نہیں ۔۔ بس میں تھکاوٹ محسوس کر رہا ہوں۔
ڈاکٹرز کی ٹیم باتیں کرتی ہوئی باہر نکلی تو انہوں نے اسے بلا لیا۔
۔ بہت اچھا ہو گیا ۔۔ بچے کی جان بچ گئی ہے۔اب بچے کے لئے فکر کی ضرورت نہیں۔ جب نیا ڈاکٹر پریکٹس شروع کرتا ہے تو پہلے سال میں ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔بعد میں آدمی احتیاط پسند ہو جاتا ہے۔ چلو اب مل کر چائے کا کپ پیتے ہیں۔
جمال نے سر اثبات میں ہلایا، اور وہ ہولے سے بولا، جسے وہ خود ہی سن سکتا تھا:
۔ یہاں تو تاریخ ہی بھدی لکھائی سے شروع ہو رہی ہے۔اور آج یہ بھدی لکھائی کسی کی جان لینے لگی تھی۔پھر اس نے دل سے دعا کی:
۔ اے اللہ میری لکھائی کو خوبصورت بنا نے کی توفیق دے دے۔
وہ ڈاکٹرز کے ساتھ کیفے کی جانب جا رہا تھا، قدم تو ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے مگر اس کے دماغ میں استاد سید سلیم کے الفاظ گردش کر رہے تھے:
۔ بے شک اللہ خوبصورت ہے اور اسے خوبصورتی پسند ہے۔
ایک شخص اس کے قریب آیا اور بڑی نرمی سے پوچھا:
۔ جمال ۔۔ جو میں نے کہا تھا تم نے ویسا کر لیا۔
جمال نے اپنا سر اوپر اٹھایا، اور ارد گرد دیکھا۔ وہ اس وقت سے سوچوں میں گم تھا۔اس نے غور سے دیکھا۔ استاد سید سلیم مسکرا رہے تھے۔ اس نے ارد گرد نگاہ ڈالی۔ سارے طلبہ جا چکے تھے اور وہ اکیلا کلاس میں بیٹھا تھا۔استاد سلیم خوش دلی سے بولے:
۔ گھنٹی بج چکی ہے۔ تمہارے ساتھی بڑے حیران نظروں سے تمھیں دیکھتے ہوئے باہر گئے ہیں۔اور اگر میں تمہیں متوجہ نہ کرتا تو تم شاید شام تک یونہی خیالوں میں گم بیٹھے رہتے۔
چلو مجھے بتاؤ ذرا کہ جزیرہ میں کیا ہوا؟ اور میرے پوتے کو تم نے کس قبرستان میں پہنچایا ہے؟
جمال نے ٹھنڈی آہ بھری۔ اور پھر اپنی کاپی میں نظم کے اس بند کو دیکھا جو پیریڈ کے شروع میں اس نے لکھا تھا۔اس نے اپنی لکھائی پڑھنا چاہی، مگر وہ خود بھی نہ پڑھ سکا۔اس کا سبب اس کی بھدی لکھائی نہ تھی، بلکہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں اور کچھ بھی واضح نظر نہ آرہا تھا۔اس نے کاپی بند کی اور سیدھا کھڑا ہو گیا۔ اور استاد صاحب سے نہایت پر عزم آواز میں کہنے لگا:
۔ استاد ِ محترم ۔۔ آپ پریشان نہ ہوں۔آپ کا پوتا زندہ بچ گیا ہے۔ اور صرف آپ کا پوتا ہی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کے پوتے موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں گے۔جی ہاں ۔۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ ایک دن میں ڈاکٹر بنوں گا۔اور لوگ دیکھیں گے کہ میری تجویز کردہ دوا کے نسخے بہت خوبصورت لکھائی میں ہوں گے، اور پیشہ ورانہ مہارت کے حامل بھی ہوں گے۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج ہی سے اپنی لکھائی کو عمدہ بناؤں گا۔اور ایسا میں اپنی خاطر نہیں بلکہ ان بیماروں کی خاطر کروں گا، جو میرے پاس علاج کے لئے آئیں گے۔استاد سید سلیم نے محبت اور شفقت سے اس کا ماتھا چوم لیا اور اسے گلے سے لگا لیا۔انہوں نے اس کا ندھاتھپتھپایا۔
۔ دیکھو ۔۔تم جیسے دہین وفطین اور اعلی طالب علم کا اتنا گندا خط نہیں ہونا چاہیے۔اور تمہارا آج کا رویہ دیکھ کر میں یہی کہوں گا کہ میری چار سالہ محنت ضائع نہیں ہوئی جو میں نے وقتاً فوقتا تمھاری لکھائی درست کرنے کے لئے کی ہے۔زبردست ڈاکٹر جمال!!
٭٭٭